حیدرآباد۔28۔اپریل(اعتماد نیوز)آج تلنگانہ میں انتخابی مہم کا اختتام عمل
میں آیا۔ جسکے بعد تلنگانہ میں جاری سیاسی سرگرمیاں اپنے اختتام کو
پہونچی۔پچھلے تین ہفتوں سے ریاست میں سیاسی سرگرمیاں ‘جلسے ‘جلوس‘اور
ریلیاں ‘تقاریر اپنے عروج پر تھیں ۔ 30اپریل کو تلنگانہ میں منعقد شدنی
انتخابات کے لئے آج انتخابی تشہیر کا آخری دن ہونے کی وجہ سے تمام سیاسی
جماعتوں نے آج آخری سرگرمیوں کو کامیاب بنانے میں سررگم رہے۔ ملک کی 29ویں
ریاست تلنگانہ 2جون کو وجود میں آئیگا ‘تلنگانہ میں انتخابات کے لئے 17لوک
سبھا حلقوں کے لئے 267 امیدوار میدان میں ہیں جبکہ 119اسمبلی حلقوں میں
1682 امیدوار اپنے قسمت کو آزما رہے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں TDP, TRS,
BJP, YSRCP, CPI, CPM, MIM اور Lok Satta انتخابی میدان میں ہیں ۔ تلنگانہ
میں مجلس اتحاد المسلمین اور ٹی آر ایس نے تنہا مقابلہ کرنے کا فیصلہ
کیا۔جبکہ کانگریس ‘سی پی آئی سے ‘تلگو دیشم بی جے پی سے ‘اور وائی ایس آر
کانگریس سی پی ایم سے اتحاد قائم کیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ریاست کی
تقسیم کے بعد آندھرا پردیش
کے سیاسی حالات میں غیر معمولی تبدیلی واقع ہوئی
جسکے سبب آندھرا پردیش میں تشکیل تلنگانہ کے حواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی
وجہ سے کانگریس کے خلاف شدید ناراضگی اور مخالفت دیکھی جا رہی ہے جبکہ
تلنگانہ میں مقبولیت دیکھی جا رہی ہے۔ اس پس منظر میں ٹی آر ایس اور
کانگریس کے درمیان تلنگانہ میں سخت مقابلہ ہو رہا ہے۔کانگریس کے لئے اس
مرتبہ تلنگانہ میں سخت آزمائش کا دور ہے۔ اس پر قابو پانے کے لئے کانگریس
کے اعلی قائدین صدر کانگریس سونیا گاندھی ‘نائب صدر راہول گاندھی وزیر اعظم
منموہن سنگھ مرکزی وزرا جئے رام رمیش اور غلام نبی آزاد ‘ریاستی کانگریس
امور کے انچارج دگوجے سنگھ نے انتخابی مہم میں سخت جد و جہد کی ۔ اس مرتبہ
مجلس اتحاد المسلمین کی جانب سے بھی بڑے پیمانہ پر مسلم دلت اور دیگر
پسمانہ طبقات کے فلاح و بہبود کے لئے بشمول آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں
34اسمبلی امیدواروں کو 5پارلیمانی امیدواروں کو میدان میں اتارا گیا۔ جن
میں سے امیدواروں کا تعلق مسلم ‘دلت اور دیگر پسماندہ طبقات سے ہے جو مسلم
اور دلت طبقہ کے لئے خوشخبری ہے۔